Tuesday 3 September 2013

فضائل مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ و روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم

فضائل مکہ معظمہ
مکہ معظمہ اس انسانی ترقی کے تمام مدارج (درجوں) اور مراتب (مرتبوں) کی ایک مرتب تاریخ ہے، وہ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ ا لسلام کے عہد میں ایک خاص خاندان کا تبلیغی مرکز بنا، پھر حضرتِ اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ میں وہ چند خیموں اور جھونپڑیوں کی مختصر سی آبادی میں ظاہر ہوا ، پھر رفتہ رفتہ اس نے عرب کے مذہبی شہر کی جگہ حاصل کر لی اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ اسلامی دنیا کا مرکز قرار پایا۔ قرآنِ کریم کا ارشادِ گرامی ہے کہ تمام حرام یعنی مکہ معظمہ کے اردگرد میلوں تک پھیلا ہوا زمین کا رقبہ روئے زمین پر موجود تمام مسلمانوں کے لیے مرجع و ما من بنا دیا گیا، عام زائرین کا جوتانتا کعب? اللہ زیارت اور عمرہ کا، سال کے ہر موسم ، ہر فصل، ہر زمانہ میں لگا رہتا ہے اس سے قطعِ نظر تصور میں نقشہ ان لاکھوں مسلمانوں کا جمائیں جو صرف حج کے موقع پر کھنچے چلے آتے ہیں، صرف حجاز یا ملکِ عرب ہی کے ہر حصے سے نہیں بلکہ روئے زمین کے ہر خطےٰ ہر علاقے، ہر ملک سے اور پھر یہ بھی زہین میں رکھ لیں کہ یہ سلسلہ دس بیس سال سے نہیں بلکہ حضرتِ ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰ? والتسلیم کے زمانہ یعنی تقریباً چار ہزار سال سے قائم ہے اور حرمِ کعبہ کا مامن اور اس کا ہر فتنہ و شر سے مامون ہونا، اس سے ظاہر ہے کہ صرف عمارتِ کعبہ یا مسجد حرام ہی نہیں بلکہ اردگرد کی ساری زمین داخلِ حرم ہے جہاں انسان کی جان لینا الگ رہا جانور تک کاشکار جائز نہیں او ر یہ حکم تو خیر شریعتِ اسلامی کا ہے، زمینِ حرم کا مامن اور مرجع امن وامان ہونا زمانہ جاہلیت یعنی زمانہِ قبل ظہور اسلام میں بھی مسلم رہا ہے، بڑے بڑے مجرم مشرکوں کے دورِ حکومت میں بھی جرم کرکے خانہ کعبہ کی دیوراروں کے درمیان آکر پناہ پا جاتے تھے۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے جو دعائیں مانگی تھیں ان میں ایک دعایہ تھی کہ شہر مکہ کو ”امن والا“ بنا دیا جائے یہ خود ایک معجزہ ہے امن وامان کے لحاظ سے حرمِ کعبہ ، مکہ اور اس کے مضافات کی سر زمین آپ اپنی نظیر ہے نہ وہاں ڈاکے پڑتے ہیں نہ قافلے لٹتے ہیں نہ لاشے تڑپتے ہیں بلکہ خونی بھی اگر آکر خانہ کعبہ میں پناہ گزیں ہو جائے تو اسے وہاں قتل نہیں کیا جاسکتا۔ مکہ کی مقدس سر زمین اور خانہ کعبہ کا اتنا احترام مشرکین عرب نے بھی ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا یہ تھی کہ مکہ والوں کو پھل پھلاری کھانے کو ملتے رہیں اور دنیا جانتی ہے کہ مکہ ایسی جگہ واقع ہے کہ ساری زمین سخت ریتلی ہے یا سخت پتھریلی ، بارش بھی بہت قلیل مقدار میں ہوتی ہے اور کاشتکاری و باغبانی کو تو کوئی جانتا ہی نہیں لیکن ان سب کے باوجود جتنے تازہ تازہ پھل ، میوے، ترکاریاں چاہیے شہر تک میں خرید لیجئے، الغرض مکہ معظمہ اور خانہ کعبہ اہلِ عرب کے درمیان مقدس اور ایک عبادت گاہ کی حیثیت سے بہت ہی قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے، اس کی اولین تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی اور اس کے منہدم ہو جانے کے بعد از سرِ تعمیر حضر ت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے قرآن کریم نے خانہ کعبہ کو سب سے پہلا معبد یعنی عبادت گاہ بتایا اور اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ کعبہ بیت المقدس سے بھی قدیم تر ہے، بلکہ مکہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہی وہ مقام ہے جس میں مادی اور روحانی، دنیاوی اور دینی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں ، اس پاک شہر اور پاک گھر کی دائمی عظمت و تقدس اور برتری کا اعلان قرآنِ کریم میں اور احادیث شریفہ میں جگہ جگہ اور مختلف عنوانات سے کیا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس (حرم مکہ کی ) حرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے ہلاک ہو جائیں گے“ (ابنِ ماجہ)

یہی وہ شہر ہے جسے رحمت ا للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن اور آپ کی ولادتِ گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے ، یہیں سے اسلا کی آواز بلند ہوئی اور یہی اسلامی تعلیمات کا پہلا مرکز ہے، یہیں آیاتِ بینات کی تجلیاں اہل اسلام کے سینون کو منور و مجلا بناتی ہیں یہی وہ مبارک شہر ہے کہ جب ایک پر قوت مسیحی سلطنت کے گورنر ابرہہ نے جو یمن کا حاکم تھا حجازِ مکہ بلکہ خود خانہ کعبہ پر چڑھائی کر دی اور اپنی پوری قوت کے ساتھ مکہ معظمہ پر فوج کشی کی تو بجائے خانہ کعبہ کے برباد کرنے کے خود ہی مع اپنے لشکر کے برباد ہو گیا اور اس کا بنابنایا کھیل بگڑگیا، ہوا یہ کہ یک بیک سمندر کی طرف سے پرندوں کا ایک ٹڈی دل نظر آیا جن کے پنجوں اور چونچوں میں کنکریاں تھیں جن سپائیوں پر وہ کنکریاں پڑتیں ان کا بدن پھوڑ کر باہر نکل آتیں اور فوراً ہی اعضا گلنے اور سڑنے لگتے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی دیر میں سارا لشکر زیر و زبر ہوگیا ، ابرہہ یہ ماجرا دیکھ کر پریشان ہو کر بھاگا اور یمن پہنچتے ہی دنیا سے سدھا ر گیا۔

کہتے ہیں کہ ابرہہ نے فوج کو حکم دیا کہ وہ مکہ کی جانب بڑھے اس کی فوج میں ہاتھی بھی تھے جو عرب میں بالکل ایک نئی چیز تھے جیسا کہ آج کل کی جنگ میں آتشیں اڑد ہے یعنی ٹینک وغیرہ ، تو ہاتھیوں کی قطار میں سب سے پہلے اس ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا جس پر خود ابرہہ سوار تھا، فیل بان اگرچہ اس پر آنگسن پر آنگسن لگاتا اور زبانی ڈپٹ رہا تھا مگر وہ کسی طرح آگے بڑھنے کا نام نہ لیتا تھا جب اسے یمن کی جانب چلاتے تو وہ تیزی کے ساتھ چلنے لگتا تھا، اسی حالت میں لشکر کو پرندوں نے آگھیر اور تباہ کر دیا، اس واقعہ سے خان? کعب? اور مکہ معظمہ کی عظمت و جلالت کی اہمیت اور بھی نمایاں ہو گئی۔
فضائل مدینہ منورہ
:مدینہ طیبہ وہ پاک و مبارک شہر ہے:
۱۔ جہاں خود حضور اقدس سرورِ اکر م جان دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ و بارک وسلم کی تربت اطہر اور روضہ انور ہے جس پر کروڑوں مسلمانوں کی جانیں قربان ہیں۔
۲۔ جس کے راستوں پر فرشتے پہر ہ دیتے ہیں اس میں نہ دجال آئے نہ طاعون (بخاری ومسلم)
۳۔ جو تمام بستیوں پر باعتبار فضائل و برکات غالب ہے۔ (بخاری ومسلم)
۴۔ جو لوگوں کو اسی طرح پاک و صاف کرتا ہے۔ جیسے بھٹی لوہے کے میل کو (بخاری و مسلم)
۵۔ جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ کرے گا، ایسا گھل جائے جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
۶۔ جو شخص اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا، اللہ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابنِ ماجہ)
۷۔ جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے وہ خوف میں مبتلا ہوگا اور اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کانہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل۔ (طبرانی، نسائی)
۸۔ جسے خود مولائے کریم و جلیل نے اپنے حبیب کی ہجرت گاہ کے لیے منتخب فرمایا۔ (بخاری و مسلم)
۹۔ جو مدینہ کی تکلیف و مشقت پر ثابت قدم رہے گا، حضور روزِ قیامت اس کی شفاعت فرمائیں گے۔ (مسلم)
۱۰۔ جو شخص مدینہ میں مرے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پائے گا اور بخشا جائے گا۔ (ترمذی)
۱۱۔ جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں فرمائیں کہ:
ا) الٰہی! ہمارے لیے ہماری کھجوروں میں برکت دے۔
ب) ہمارے صاع و مد( دو پیمانے) میں برکت دے۔
ج) ہمارے مدینہ میں برکتیں اتار۔
د) یا اللہ! بے شک ابراہیم تیرے بندے، تیر ے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بیشک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، انہوں نے مکہّ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے دعا کرتا ہوں اسی کی مثل جس کی دعا مکہّ کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور (یعنی مدینہ کی برکتیں مکہ سے دو چند ہوں) (مسلم وغیرہ)
ر) یا اللہ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے درست فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما او ر یہاں کے نجار کو منتقل کرکے حجفہ میں بھیج دے۔
یہ دعا اس وقت فرمائی تھی جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں آب و ہوا صحابہ کرام کو ناموافق ہوئی کہ پیشتر یہاں وبائی بیماریاں بکثرت ہوتیں اسی لیے اس کا نام یثرب تھا یعنی ناموافق آب و ہوا والی بستی ، اب یہ یثرب نہیں بلکہ طیبہ ہے۔

روضہ انور کی زیارت کے فضائل
:یہی فضیلت کیا کم ہے کہ مولائے قدوس جل جلالہ نے تمہیں اس پاک شہر میں پہنچا کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بنایا اور دنیا و آخرت میں تمہاری کامرانی و بخشش و نجات و شفاعت کا مڑدہ اپنے حبیب کی زبان وحیِ ترجمان سے سنایا ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ” جو میری قبر کی زیارت کرے اس کے لیے میری شفاعت واجب ہے“۔ (بیہقی) نیز فرمایا ” جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو ایسا ہے جیسے میری حیات میں زیارت سے مشرف ہوا۔ (طبرانی) ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے میری وفات کے بعد زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی اور جو حرمین میں مرے گا قیامت کے دن امن والوں میں اٹھے گا“۔ (بیہقی)
ایسی عظیم بشارتوں کو سن کر بھی جس کا دل نہ پسیجے اور آسانہ پر حاضری نہ دے تو ظاہر ہے کہ بڑی بدنصیبی و محرومی کی راہ چلا۔ ایسوں ہی کے بارے میں فرمایا۔
جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی، اس نے مجھ پر جفا کی“ (ابنِ عدی)
خود قرآنِ عظیم قیام قیامت تک مسلمانوں کو اس زیارت کی طرف بلاتا اور انہیں ترغیب دیتا ہے ولو انھم اذظلموا الاٰ ی? ” یعنی اگر ایسا ہو کہ وہ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں یعنی گناہ جرم کریں، تیری بارگاہِ بیکس پنا ہ میں (اے محبوب) حاضر ہوں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور مغفر چاہے ان کے لیے رسول تو بے شک اللہ عزوجل کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں“۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حالِ حیات اور حالِ وفات دونوں کو شامل ہے اور مزار پرانور پر حاضری قریب بہ واجب ہے۔
امام قاضی عیاض نے شفا شریف میں فرمایا کہ ” قبرِ اقدس حضور والا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سفر کرکے جانا واجب ہے ، زیارت قبر شریف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے ا ور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واجب“۔
اسی لیے امام قسطلانی فرماتے ہیںکہ ” جو باوجودِ قدرت زیارت مزارِ اقدس ترک کر دے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جفا کی“ جیسا کہ ا بھی حدیث گزری۔

بہت لوگ طرح طرح سے بہکاتے ہیں ، خبر دار! کسی کی نہ سنو اور ہر گز محرومی کا داغ لے کر نہ پلٹو۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔